(ابولبیب شاذلی)
میرے نابینا والد کا کارنامہ یاد رکھیے گا!
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ’’انصار‘‘ کا ایک شخص آیا اور عرض کیا: امیر المومنین! میرے بارے میں میرے والد کا کارنامہ یاد رکھیے۔ فرمایا: تیرے باپ کا کارنامہ کیا ہے؟ عرض کیا: امیر المومنین! ایک مشرک عورت رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتی تھی۔ میرے والد نے جو نابینا انصاری تھے، کہا: کوئی ایسا شخص نہیں جو آپ کی جانب سے اس عورت سے نمٹ لے۔ اچھا! مجھے اس راستہ پر بٹھا دو اور جب وہ گزرے تو مجھے خبر کردو‘‘۔ ان کو راستہ پر بٹھادیا گیا، جب ان کو اس عورت کے گزرنے کی خبر ہوئی تو لپک کر حملہ کیا اور اسے ٹھکانے لگادیا۔ یہ سن کر جناب عمرؒ نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم اس طرح ہے، فرمایا: ’’یہ ایسے فضائل ہیں جو وقت کی لوح جبیں پہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتے ہیں۔‘‘
عمر بن عبدالعزیزؒکی علمی صلاحیت و عبادت
آپؒ کی عمر اس وقت بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ ابھی آپ کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب آپ اپنی آرائش و لباس پر خوب خرچ کرتے تھے۔ آپ نہایت قیمتی لباس اور خوشبو استعمال کرتے تھے۔ جس جگہ سے گزر جاتے کافی دیر تک خوشبو آتی رہتی، مگر اس کے ساتھ ساتھ علماء کرام سے رابطہ، ان کی صحبت، علمی مجالس میں شرکت، شعر و شاعری، محدثین کے ساتھ خصوصی لگائو اور ان سے علم حاصل کرنا، یہ ایسی باتیں تھیں جو ان کو دیگر اموی شہزادوں سے ممتاز کرتی تھیں۔ انہوں نے بعض احادیث کی روایت بھی کی ہے۔ علماء کی مسلسل مجالس اور علمی مذاکروں کے ذریعے ان کا علم اتنا زیادہ ہوچکا تھا کہ جب آپ ملک شام جاتے تو شام کے علماء آپ سے فتاویٰ پوچھتے، آپ ان کو بالکل درست جوابات دیتے تھے۔
امتحان لینے کے لیے سوالات
بعض لوگ ان کا امتحان لینے کے لیے ان سے سوالات کرتے، مگر امتحان لینے کے بعد انہیں بھی اس بات کا یقین ہو جاتا کہ آپ کا علم بہت پختہ اور راسخ ہے۔ میمون بن مہران اس دور کے مشہور عالم تھے۔ ان کا کہنا ہے: عمر بن عبدالعزیز ہمارے پاس آئے تو ہمارا خیال تھا کہ یہ علمی معاملات میں ہمارے محتاج ہوں گے، مگر جب ان سے گفتگو ہوئی، علمی مذاکرہ ہوا تو ہماری توقع کے برعکس ہم ان کے شاگرد ہوگئے۔ ہم نے انہیں بہت بڑا عالم پایا۔ مسجد نبوی میں تعلیم دینے والے عالم زید بن اسلم کہتے ہیں: ایک مرتبہ ہم نے عمر بن عبدالعزیزؒ کی امامت میں ظہر کی نماز ادا کی، پھر ہم سیدنا انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ اس وقت کچھ بیمار تھے اور مرض کے باعث نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہ ہوسکتے تھے۔ کہنے لگے: کیا آپ لوگوں نے نماز ظہر ادا کرلی؟ ہم نے کہا: جی ہاں! ہم نے عمر بن عبدالعزیزؒ کی اقتداء میں نماز ادا کی ہے۔ فرمانے لگے: میں نے اس نوجوان کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز میں جو مشابہت رسول اللہﷺ کی نماز سے پائی ہے وہ مجھے کہیں اور نہیں ملی۔
زید کہتے ہیں: حضرت عمر بن العزیزؒ مسجد نبوی میں نماز پڑھاتے تو قیام و قعود ہلکا اور رکوع و سجود طویل کرتے تھے۔ ایک صحیح روایت کے مطابق وہ دس دس بار تسبیحات پڑھا کرتے تھے۔ میمون بن مہران کا کہنا ہے کہ ان کے علم کی کیفیت یہ تھی کہ بڑے بڑے علماء بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے شاگرد دکھائی دیتے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں